حادثہ

صلیب سے جو ٹپکتا ہے بے گناہ لہو
وہ بوند بوند کا اپنی
حساب لیتا ہے
زمین جبر کی افواج فیل واقف ہیں
فضا میں ایسے پرندوں کا
ایک غول بھی ہے
جو کنکری سے چٹانوں کو توڑ دیتا ہے
جب اپنی حد سے گزرتے ہیں
ابرہی سیلاب
یہ سنگریزوں سے
رخ ان کے موڑ دیتا ہے
سو جب یہ سازشی صیاد طائروں کے لیے
فضا میں ہر طرف اک جال تان بیٹھے ہوں
تو حادثات
کوئی اہتمام کرتے ہیں
کہیں سے موت کے کنکر
اچھالتا ہے کوئی
اسی کے دام اسے
زیر دام کرتے ہیں
بس اور کچھ نہیں
ان حادثات کی تفصیل
یہ حادثات
تو حجت تمام کرتے ہیں