گلستاں در گلستاں اب باغباں کوئی نہیں
گلستاں در گلستاں اب باغباں کوئی نہیں
پھول سب تنہا کھڑے ہیں تتلیاں کوئی نہیں
دھوپ اچھی لگ رہی ہے آج کتنے دن کے بعد
بادلوں کا دور تک نام و نشاں کوئی نہیں
خشک لکڑی کی طرح سے جل گئے سارے مکاں
یہ عجب کہ ساری بستی میں دھواں کوئی نہیں
نام کیا دے گا کوئی ان بے سبب حالات کو
مہرباں سارے ہیں لیکن مہرباں کوئی نہیں
اپنے گھر سے دور رہ کر ہر قدم ہے امتحاں
کون کہتا ہے یہاں پر امتحاں کوئی نہیں
اس نے اپنے شوق سے دست دعا کٹوا دئے
اس کے چہرے پر لکھی اب داستاں کوئی نہیں
رات کی جھیلوں میں اترے گی کہاں سے چاندنی
ہم سیاہ بختوں کو بھی ایسا گماں کوئی نہیں
کیا خبر کیا ہو گیا ہے اس معمر شخص کو
دن ڈھلے جنگل سے چنتا لکڑیاں کوئی نہیں
اک عجب سا حادثہ دیکھا ہے صفدرؔ شہر میں
خشک ہیں سب آشیاں اور بجلیاں کوئی نہیں