گھپ اندھیرا ہے کیا قیامت ہے
گھپ اندھیرا ہے کیا قیامت ہے
اک تبسم کی پھر ضرورت ہے
سر کو سینے پہ رکھ کے سن لیجے
آپ سے دل کو کچھ شکایت ہے
ناصحوں سے ہے مے کشی کا فروغ
شوق پروردۂ ملامت ہے
دل کی دھڑکن جو ہے مدار حیات
اک ذرا تیز ہو تو آفت ہے
آگ پانی سے بھاپ اٹھتی رہی
ہم سمجھتے رہے محبت ہے
دہر میں ہم کمال صنعت ہیں
اور باقی فریب صنعت ہے
زلف بکھرا دو دونوں عالم پر
کہ اندھیرے کی پھر ضرورت ہے
ابھی جینے کا حکم ہے رضویؔ
اور کیا جانے کیا مصیبت ہے