گرمی کا زمانہ

گرمی کا ہے زمانہ
سردی ہوئی روانہ
آنکھیں دکھائے سورج
تن من جلائے سورج
پانی ہوا ہوا ہے
جنگل جلا ہوا ہے
ہوتی ہے سائیں سائیں
غصے میں ہیں ہوائیں
اٹھتے ہیں یوں بگولے
جیسے گگن کو چھو لے
تیتر بٹیر طوطے
کھائیں ہوا میں غوطے
دھرتی دہک رہی ہے
مٹی سلگ رہی ہے
گر جائے جو زمیں پر
بھن جائے ہے وہ دانہ
گرمی کا ہے زمانہ
سردی ہوئی روانہ
موسم بدل رہا ہے
انساں پگھل رہا ہے
اترا گلے سے مفلر
منہ تک رہی ہے چادر
تہ ہو گئی رضائی
خالی ہے چارپائی
کمبل سہج رکھی ہے
ململ گلے لگی ہے
پنکھوں کو جھل رہے ہیں
اب فین چل رہے ہیں
ہیٹر سے خوف کھائیں
کولر چلائے جائیں
ہر شے بدل رہی ہے
کیا مرد کیا زنانا
گرمی کا ہے زمانہ
سردی ہوئی روانہ
آتی ہے یاد نانی
کرتے ہیں پانی پانی
شربت کا دور آئے
قلفی دلوں کو بھائے
تربوز بک رہے ہیں
خربوز بک رہے ہیں
دوکان کوئی کھولے
بیچے ہیں برف گولے
گھر گھر میں ہم نے دیکھا
پیتے ہیں روح افزا
لسی کا بول بالا
کافی کا منہ ہے کالا
جس سے ملے ہے ٹھنڈک
اس کا جہاں دوانہ
گرمی کا ہے زمانہ
سردی ہوئی روانہ