گریباں چاک کرنے سے ہمیں فرصت بھی ملتی ہے

گریباں چاک کرنے سے ہمیں فرصت بھی ملتی ہے
رہے تو مہرباں تو علم کی دولت بھی ملتی ہے


خدا رکھے تجھے اے شاعری تیری بدولت ہی
ہمیں عزت بھی ملتی ہے ہمیں شہرت بھی ملتی ہے


در جاناں کو ہم نے اس لئے اب تک نہیں چھوڑا
جہاں کچھ رنج ملتا ہے وہیں راحت بھی ملتی ہے


عبادت سے فقط خوشنودیٔ مولا نہیں ملتی
ستم گر تجھ سے لڑنے کی ہمیں ہمت بھی ملتی ہے


غلط آئے تو ہونٹوں پر تبسم ڈھونڈنے والو
یہاں آنسو بہانے سے کبھی مہلت بھی ملتی ہے


بہت ہی سوچ کر اپنے قدم رکھنا خرد والو
یہ راہ عشق ہے اس راہ میں وحشت بھی ملتی ہے


سلامت ہے اگر ایمان اے تشنہؔ یقیں کر لو
کہ جس پر ناز ہے رضواں کو وہ جنت بھی ملتی ہے