غموں میں ہنس کے بتانا ہے کیا کیا جائے
غموں میں ہنس کے بتانا ہے کیا کیا جائے
یہی تو سب کا فسانہ ہے کیا کیا جائے
اگے ہیں جن کی ہتھیلی میں سیکڑوں کانٹے
انہیں سے ہاتھ ملانا ہے کیا کیا جائے
وہ جن کا نام بھی لینے سے ہونٹ جلتے ہیں
انہیں ادب سے بلانا ہے کیا کیا جائے
ہماری پیاس کو کچھ بوند اور سمندر تک
سلگتی ریت سے جانا ہے کیا کیا جائے
جہاں ہوا کہ مکمل اجارہ داری ہے
وہیں چراغ جلانا ہے کیا کیا جائے
نہیں کسی کا مخالف میں آج بھی لیکن
مرے خلاف زمانہ ہے کیا کیا جائے
ہزاروں طنزیہ تیروں کا آج کل تشنہؔ
ہمارا دل ہی نشانہ ہے کیا کیا جائے