غم تھوڑا سا کم ہو جائے
غم تھوڑا سا کم ہو جائے
درد مرا مدھم ہو جائے
دفتر میں تھک جاتا ہے دل
شہر میں تازہ دم ہو جائے
شاخیں مستی میں لہرائیں
ہرا بھرا موسم ہو جائے
روز و شب جو جھیل رہا ہوں
اک اک بات رقم ہو جائے
جتنا میں خوش کرنا چاہوں
اتنا وہ برہم ہو جائے