اے مری جان تجھے اور بدلنا ہوگا

اے مری جان تجھے اور بدلنا ہوگا
پھر مرے ساتھ کڑی دھوپ میں چلنا ہوگا


اپنے پیروں پہ ابھی قرض سفر باقی ہے
حد امکان سے آگے بھی نکلنا ہوگا


اس سے پہلے کہ ڈھلے رات نیا دن نکلے
ترے خوابوں کو مرے خواب میں ڈھلنا ہوگا


انقلابات کا آغاز بھی ہوگا لیکن
لے کے پرچم سر بازار نکلنا ہوگا


کامیابی کا یقیں دور نہ کر دے ہم کو
پاس منزل کے ذرا اور سنبھلنا ہوگا


وادیوں میں تو کسی خواب کی بھٹکے ہے فروغؔ
تجھ کو تعبیر کے صحرا میں بھی جلنا ہوگا