گاؤں آ کر جو اپنا گھر دیکھا
گاؤں آ کر جو اپنا گھر دیکھا
دل کو آزردہ کس قدر دیکھا
گھر تھا خاموش اونگھتی گلیاں
ایک سناٹا سربسر دیکھا
آشیاں تھا جو ہم پرندوں کا
تنہا تنہا سا وہ شجر دیکھا
کس کے شانے پہ رکھ کے سر روتے
کوئی رشتہ نہ معتبر دیکھا
کھیت کھلیان ساتھ رونے لگے
روتا ہم کو جو اس قدر دیکھا
عیش و عشرت کی یاد آئی بہت
ہم نے بچپن میں جھانک کر دیکھا
یاد پاپا کی خوب آئی صہیبؔ
ہم نے بچوں کو ڈانٹ کر دیکھا