گاندھی
آغوش میں پھولوں کی تھرکتا ہوا شعلہ
انگاروں کے گہوارے میں سوئی ہوئی شبنم
اک جذبہ اک احساس اک انداز اک آواز
نکھرا ہوا اک درد تپایا ہوا اک غم
انسان کی صورت میں دھڑکتا ہوا اک دل
پیکر میں عناصر کے کوئی دیدۂ پر نم
سینے میں سموئے ہوئے گنگا کا تموج
کاندھے پہ ہمالہ کا اٹھائے ہوئے پرچم
نیرنگئ افکار کا سمٹا ہوا دریا
بیتابئ جذبات کا ٹھہرا ہوا طوفاں
فاروق کا متوالا اخوت کا پجاری
گوتمؔ کا دلآرام اہنسا کی رگ جاں
اپنی ہی خطاؤں کا وہ نقاد جواں فکر
وہ اپنے ہی اسرار کا اک سیل خراماں
ماحول کے سینے کا دہکتا ہوا لاوا
تاریخ کے ماتھے پہ سجائی ہوئی افشاں