ایک زندہ کہانی
میری زبان پر آیاجملہ ابھی مکمل بھی نہیں ہواتھا کہ نوری نے جھپٹ کر اتنی زور سے میرا منہ بند کیا کہ میں چھٹپٹاگئی۔اگروہ کچھ دیر اوردبائے رکھتی تویقیناًمیری آنکھیں باہر آجاتیں۔
نوری واقعی بہت خوبصورت تھی۔ ذہین اور بے باک۔ فیصلے کرنے میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ نڈر اور سفاک بھی تھی اور یہی سفاکی اس کی شخصیت کا منفردپہلو اجاگر کرتی تھی۔ کسی کی پرواکیے بغیر دلائل کے ساتھ اپنی بات پیش کرنا اسے خوب آتاتھا۔ تعلیم میں اول نہ ہونے کے باوجود موضوعِ بحث رہتی۔ نئے نئے دوست اس کے حلقہ میں آتے لیکن زیادہ دن نہ ٹکتے۔اس کے ساتھ دوستی کا طویل سفر طے کرنے والوں میں صرف میں تھی۔ وہ کم بولتی ۔ لیے دیے رہتی تو اکثر مغرور بھی سمجھی جاتی۔ حالانکہ نوری مغرور باکل نہیں تھی۔ بچپن سے جوانی کی دہلیز تک ہم نے ساتھ قدم بڑھائے۔ چھوٹی بڑی، اچھی بُری، جھوٹی سچی تمام شرارتیں ہم نے ایک ساتھ کیں۔ سزائیں بھی ایک ساتھ بھگتیں۔ کئی مرتبہ تو دل بھی ایک ساتھ دھڑکے۔ اسکول سے کالج آتے آتے ہماری دوستی بہت پختہ ہوچکی تھی۔ ہم دونوں میں تکراربھی ہوتی لیکن جتنی تکرار ہوتی محبتیں بھی بڑھتیں۔ ہماری محبتیں اور تعلقات ایک دوسرے کے گھروں میں داخل ہوچکے تھے۔
کالج پہنچ کر وہ سائکلوجی کی طرف چلی گئی میں فائن آرٹس کی طرف، لہٰذا ڈپارٹمنٹ بھی الگ ہوگئے لیکن پھر بھی کینٹین اور کامن روم میں اکثر ملاقاتیں ہوتیں۔ نت نئے دوستوں کا اضافہ ہوا تو رونقیں بھی اوربڑھ گئیں۔ ہم سبھی اب عمر کے اگلے حصہ میں قدم رکھ چکے تھے لہٰذا بحث ومباحث کے موضوعات بھی تبدیل ہوگئے۔عشق و محبت، جنس، مرد، شادی، تنہائی،نفسیات ،عورت کے حقوق اور سماجی برابری پر خوب خوب گرماگرم بحثیں ہوتیں۔ لیکن جب بھی بات عورت،شادی اور جنسی رشتوں پر آتی نوری غصہ اور نفرت سے بھرجاتی۔اس کی زبان سے زہر بھرے نشتر نکلنے لگتے۔ مردہمیشہ اس کے نشانے پر ہوتا۔ اس کے خیال میں شادی بالکل بے کار کابندھن ہے۔ عورت کی زندگی شادی کرکے جہنم بن جاتی ہے اس کی تمام صلاحیتیں معدوم ہوجاتی ہیں، اس کے مقدرمیں صرف غلامی رہ جاتی ہے، وہ چوبیس گھنٹے کی ملازمہ اور بچے پیدا کرنے کی مشین بن جاتی ہے۔ جنس کے بارے میں بھی اس کانقطۂ نظر بہت مختلف تھا۔ وہ مانتی تھی کہ اس رشتہ کی شروعات ہی عورت کے زیرہونے سے ہوتی ہے۔ وہ صاف کہتی مجھے چت ہوتی ہوئی عورت سے نفرت اورکراہیئت آتی ہے۔ شادی ہونے کے بعد وہ شوہر کے لیے بس جسم بن جاتی ہے۔اس کے نتائج بھی عورت کوہی بھگتنا پڑتے ہیں۔ وہ نوماہ تک مرد کی جبلت کواپنی کوکھ میں لیے پھرتی ہے، اپناحسن کھوتی ہے،اپنی خودمختاری کھوتی ہے اوریہ عمل باربار دہراتی ہے۔یہ توعورت کی ہار ہے۔ کیا عورت اس رشتہ کے بغیر زندگی نہیں گزارسکتی۔کیا کوئی محبت کرنے والا ایسا مرد یاایسا شوہر مل سکتا ہے جو ہر طرح کاخیال رکھے اورجسم کا مطالبہ نہ کرے یا اس ضرورت کوعورت کی مرضی پر چھوڑ دے.........؟نہیں۔ اس بحث میں اکثر وبیشتر نوری آپے سے باہر ہوجاتی۔
نوری ایک متوسط روایتی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ سات بہن بھائی تھے۔ دوبھائی پانچ بہنیں۔جن میں نوری دوسرے نمبر پرتھی۔ سب سے بڑا بھائی ناظم اب چوبیس برس کا ہوگیا تھا۔ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کررہاتھا۔لگاتار پانچ بہنوں کے بعد سب سے چھوٹا حاتم بھی اب دس برس کا ہوگیا تھا۔ نوری کے بابا کہیں سرکاری ملازم تھے۔ بڑاکنبہ تعلیمی اخراجات اورقلیل آمدنی۔ اوپر سے پھوپھی جان، جنھوں نے شادی نہیں کی تھی اور ساتھ ہی رہتی تھیں۔ کسی فیملی پلاننگ سینٹرمیں ملازمت کرتی تھیں۔ آزادانہ مزاج کی مالک تھیں اور کسی کی پرواہ کیے بغیر دل کھول کر جیتی تھیں۔ ہاں کبھی کبھی بہ وقت ضرورت پیسوں سے ابا کی مدد کردیاکرتیں۔ لیکن نوری کوان کی ایک بات سخت ناپسند تھی۔ وہ زیادہ بچے پیداکرنے پر ہمیشہ اس کی امی کو لعن طعن کرتی رہتیں۔ امی بالکل خاموش رہتیں اسے امی کی مظلومیت پر ترس آتا اور اپنے ابا کاامی اور پھوپھی جان کے بارے میں لاتعلقی جیساسرد رویہ سخت ناگوارگزرتا۔ بچے امی نے اکیلے تو پیدانہیں کردیے تھے لیکن پھوپھی جان کی جلی کٹی صرف امی کو سننا پڑتی تھی۔
اِدھر تعلیم مکمل ہوئی اور اُدھر رشتوں کی لائن لگ گئی۔ عمر کے پچیس برس پرلگا کر اڑچکے تھے۔ ناظم نے بھی اپنے لیے لڑکی کاانتخاب کرلیا تھا۔ نوری کی شادی کے بعد وہ بھی اپنی شادی کرناچاہتا تھا۔لیکن اچانک......... دوٹوک الفاظ میں نوری نے اپنے کنوارے رہنے کااعلان کردیا......... بس پھر کیا تھا نوری پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ محبتوں کے تمام دروازے اس کے لیے بندہوگئے۔ ناظم تو اس کی شادی کامنتظر تھا ہی باقی بہنیں بھی جوانی کی دہلیز پار کررہی تھیں۔ انھیں بھی اپنا مستقبل لرزتا ہوامحسوس ہوا۔پھوپھی البتہ نوری کے حق میں تھیں لہٰذا نند بھاوج میں جم کر لڑائی ہوئی۔ یہاں تک کہ پھوپھی گھرچھوڑ کر چلی گئیں۔ نوری کے ابا کے لیے بھی اس صورت حال کوسنبھالنا مشکل ہوگیا۔ بھائی بہنوں اور والدین کی نفرت جھیلنا نوری کے لیے اتنا آسان نہ تھا۔ آہستہ آہستہ شاید وہ اندر ہی اندر ٹوٹنے لگی تھی... تبھی تو اس نے شادی کے لیے ہاں کہہ دی۔
سب کے چہروں پر رونق واپس آگئی۔ ماں نے بلائیں لے ڈالیں ہنسی خوشی شادی ہوئی اور نوری رخصت ہوکر سسرال چلی گئی۔
نوری بھاری بھرکم لباس اور زیوارات سے لدی پھندی دلہن بنی کمرے میں بیٹھی آنے والے وقت کا انتظار کررہی تھی۔ طرح طرح کے وسوسے اس کے ذہن کوگھیرے ہوئے تھے... یکایک آؤ آؤ آؤکرتی ہوئی پٹ کھول کر دوبلیاں کمرے میں گھس آئیں ایک کے پیچھے ایک... دوڑتے بھاگتے کمرے میں رکھے لیمپ کی ڈوری ان کے لپیٹے میںآئی اور لیمپ دھڑام کی آواز سے گرپڑا۔ نوری گھونگھٹ کے پٹ کھول کرہانپتی کانپتی یہ تماشہ دیکھ رہی تھی۔ اس نے دیکھا کمزور نحیف سی بلی کو دوسری موٹی بلی نے جو شاید بلّاتھا گردن سے منہ میں دبوچ رکھاہے۔ نوری نے ہشت ہشت کرکے دونوں کو بھگانا چاہا۔ اپنی جوتی اٹھا کر پھینک کر ماری۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ پل بھر میں ہی بلی ہار مان گئی اور بلا اس پر حاوی ہوگیا۔ غصہ کے مارے نوری کی مٹھیاں بھنچ گئیں۔ وہ پسینہ پسینہ ہوگئی۔ حلق سوکھ گیا۔ اس کا کپکپاتا جسم بستر پر ڈھیرہوگیا۔ اسے ایسا محسوس ہورہاتھا اس کا کمزور وجود کسی کی گرفت میں پھنسابے بس ہوکر بری طرح تڑپ رہاہے۔
یکایک شہریار کمرے میں داخل ہوئے اس نے ہمت کرکے خود کو سمیٹا اور اٹھ بیٹھی... گردن گھما کر فرش پرنگاہ ڈالی جہاں کچھ دیر پہلے بلیاں ایک دوسرے میں خلط ملط تھیں۔ اس نے دیکھا دونوں بلیاں کچھ ہی فاصلے سے ایک دوسرے کے سامنے آرام سے بیٹھی ہیں۔ کمرے کا منظر دیکھ کر دلدار خاں شاید بلیوں کی شرارت بھانپ گئے تھے ۔انھوں نے بلیوں کوبھگایا۔لیمپ ایک طرف رکھا اور نوری کی طرف متوجہ ہوئے۔ لیکن نوری کے چہرے پر ایک عجیب سی سختی اورسپاٹ پن کے آثار صاف دکھائی دے رہے تھے۔شاید وہ اپنے دل میں کوئی فیصلہ کرچکی تھی۔ دراصل نوری نے شادی توکرلی لیکن اس رشتہ کے لیے وہ اپنے اندر کی عورت کوراضی نہیں کرسکی لہٰذا پہلی ہی رات میں اس نے طلاق کا مطالبہ کردیا۔
طلاق...؟؟ شہریار ہکابکارہ گئے۔
آپ جانتی بھی ہیں آپ کیا کہہ رہی ہیں؟
آپ جب تک راضی نہیں ہوں گی ہم آپ کو چھوئیں گے بھی نہیں۔لیکن خدا کے لیے ایسا مذاق نہ کیجیے۔زمین اور آسمان لرزجاتے ہیں اس ایک لفظ سے... ایسی مبارک رات کو ایسا منحوس لفظ...
یہ مذاق نہیں سچ ہے... نوری نے بڑے سردلہجے میں جواب دیا۔
کیاکسی نے آپ کی دل شکنی کی ہے؟؟
ہم سے کوئی گستاخی سرزد ہوئی ہے؟ وہ اپنے طیش کو دباتے ہوئے انتہائی نرمی سے بولے...
’مجھے مرد کا غلام نہیں بننا...‘
کیسی غلامی؟ یہ آپ کیسی باتیں کررہی ہیں؟ یہ تو قدرت کانظام ہے۔ یہ ایک مقدس رشتہ ہے او رپھر یہ شادی کوئی زبردستی نہیں تھی۔ سب کی رضامندی سے ہی ہمارا نکاح ہوا ہے اور نکاح غلامی نہیں سنت اور عبادت ہے۔ اس سے عورت کی تکمیل ہوتی ہے۔وہ ماں بنتی ہے قدرت کے حسین تحفے اس کو سرشاری عطا کرتے ہیں۔ اگرایسا نہ ہوتا تو ماں کے قدموں تلے جنت نہ ہوتی۔ آپ کوکسی نے گمراہ کیا ہے۔ آپ اپنے دل سے تمام شکوک نکال دیں۔ آج کی رات ہم دونوں کے ملن کی رات ہے۔
’یہ سب ڈھکوسلہ ہے جسے آپ ملن کی رات کہتے ہیںیہ عورت کے زیرہونے کا ایک ناقابل فراموش المیہ ہے جس کے نتائج اسے زندگی بھر بھگتنے پڑتے ہیں۔‘نوری نے سفاکی سے جواب دیا۔
شہریارنے ہرپہلو اور ہرزاویہ سے نوری کو شادی شدہ زندگی کاعکس دکھایا لیکن نوری زیر نہیں ہوئی۔ وہ اپنی ضد پرہی اڑی رہی۔ لہٰذاصبح ہوتے ہی نوری کواس کے گھرپہنچادیاگیا۔ نوری کا گھر پہنچنا تھا کہ قیامت آگئی۔ دوخاندانوں کی عزت داؤ پر لگاکر نوری گھر آکر بیٹھ گئی......... اپنے چاروں طرف نفرت کے دہکتے الاؤ اوردل کوچیرتے ہوئے سیکڑوں نشتر وہ برداشت نہیں کرسکی۔ اسے والدین کا گھر چھوڑ کر پھوپھی جان کے یہاں پناہ لیناپڑی۔ انھوں نے بھی نوری کو آڑے ہاتھوں لیا۔
مجھے اندازہ نہیں تھا تم اتنی جلدی ہمت ہارجاؤگی اورشادی کے لیے ہاں کہہ دوگی۔ تمہاری وجہ سے میں بھی بُری بنی۔ اب جب کر ہی لی تو پھر واپس کیوں آگئیں۔ وہاں رہناتھا۔ ویسے توشہریار اچھا لڑکاتھا۔ جب تک شادی نہیں ہوتی ایک ہی سوال ہوتا ہے کیوں نہیں کی؟ اب ظاہرہے دوخاندانوں کامعاملہ ہے دسیوں سوال ہیں اورجگ ہنسائی الگ۔ تویہ نفرت توتمھیں جھیلنا ہی پڑے گی۔ خودکو تیار کرلو اس کے لیے۔
نوری نے نفرت بھی جھیلی عذاب بھی سہے۔ اس کی خاموشی نے اسے نئی راہ دکھائی۔ اس نے ایک این جی اوجوائن کرلیا۔ زندگی کچھ آسان ہوئی۔ وقت کا پنچھی پرلگاکر اڑگیا۔نوری نے عمر کی چاردہائیاں پار کرلی تھیں۔ وہ ماہر نفسیات بن گئی تھی۔ پھوپھی جان اللہ کوپیاری ہوگئیں۔ بھائی بہنوں اور والدین کی نفرتوں کی دیوار کم ضرورہوئی تھی لیکن ختم نہیں۔
وقت بھی کس کس طرح کروٹ بدلتا ہے کوئی نہیں جان سکتا۔ این جی او میں نوری کے رابطہ میں نواب دلدارخاں آتے ہیں جو کچھ ذہنی پریشانیوں کا شکارتھے۔ نوری نے ان کی نبض پر ایسا ہاتھ رکھا کہ چندماہ میں ہی ان کی پریشانیاں دور ہوگئیں اور نوری بیگم دلدارخاں بن گئیں۔
نواب دلدارخاں لمبے چوڑے سرخ وسپید تنومندبڑی ہی پُرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ عمر پچاس کے لپیٹے میں۔دولت کی فراوانی تھی۔ کھیتی کسانی ،باغات، پرانی حویلی ،نوکرچاکر سبھی عیش و آرام سے اللہ نے نوازاتھا۔ اکلوتی اولاد تھے۔ بیٹے کی شادی کاارمان دل میں سجائے والدین رخصت ہوگئے تھے۔
نوری کے نصیب پرسب عش عش کرتے۔ خیرسے کئی ماہ گزرگئے۔ لیکن میرے دل میں ایک خواہش بار بارسرابھارتی کہ نوری سے اس تبدیلی کی وجہ ضرور پوچھوں۔
ایک دن میں نے نوری کی محل سراکارخ کیا۔ اس کے ٹھاٹ باٹ شان و شوکت عیش و آرام دیکھنے لائق تھا۔ نوری کے حسن میں چارچاند لگ گئے تھے۔ وہ انتہائی خوش وخرم تھی۔ خوب گپ شپ ہوئی۔ اسکول اور کالج کی بہت سی یادیں تازہ ہوئیں۔ پُرتکلف چائے پی گئی۔
ہمارے بہنوئی صاحب کہاں ہیں بھئی؟؟
دلدار...؟ نوری کے لبوں پران کا نام لیتے ہوئے تبسم نمودارہوا۔
وہ آج فارم ہاؤس گئے ہوئے ہیں کچھ نئے پیڑپودے لگوانا تھے۔
کیسے ہیں وہ نوری...؟ میرامطلب مزاج عادت ۔
بہت اچھے ہیں وہ...بے مثال...جیسا میں چاہتی تھی۔
تجھے پسند توہیں نا؟؟
لیکن یہ تو بتایارتیرے اندریہ تبدیلی ہوئی کیسے؟؟کیاتونے خودکوبدل دیا...؟ چت کون ہوا؟وہ کہ تم...؟ میں نے چٹخارہ لیتے ہوئے پوچھ ہی ڈالا۔
ایک لمبی خاموشی کے بعدنوری نے جواب دیا کوئی بھی نہیں۔
کوئی نہیں... ہاہاہاہائیں...کوئی نہیں۔کیامطلب؟ توکیا ابھی تک...؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟؟
ایسا ہی ہے تجھے پتہ ہے میں جھوٹ نہیں بولتی۔
توکیا...وہ...نا...اس سے پہلے کہ میں لفظ مکمل کرتی نوری نے جھپٹ کر اپنے ہاتھ سے میرامنہ بندکردیا۔