ایک پل کے لیے تھے وہ آئے نظر
ایک پل کے لیے تھے وہ آئے نظر
عمر بھر دل پکارا کہ ہائے نظر
پھول بن کر ہمیشہ ہی کھلتی رہے
چاند بن کر کبھی جگمگائے نظر
وقت رخصت تری چشم نم کیا کہوں
کاش منظر مری بھول جائے نظر
جانے دل میں یہ کس کا خیال آ گیا
آپ ہی آپ یہ مسکرائے نظر
اک مثالی غزل ہے لکھی آپ پر
خواب لمحوں سے روشن برائے نظر
ایک مدت سے حسرت یہی ہے مری
مجھ کو دیکھے تو پھر وہ ملائے نظر
اس کے تیر نظر کی بڑی دھوم ہے
آئے دل پہ مرے آزمائے نظر
اس نظر کی نظر میں اتاروں گی پھر
اک نظر جو تجھے دیکھ پائے نظر
ہادیہؔ روح میں میری بستا ہے وہ
کیسے ممکن ہے اب وہ چرائے نظر