دیا جلا بھی نہیں جو اسے بجھا دیا جائے

دیا جلا بھی نہیں جو اسے بجھا دیا جائے
ہمیں بھی وقت سے پہلے ہی اب سلا دیا جائے


یہی رضا ہے اگر کاتب مقدر کی
تو جو پنپ نہ سکے پھر اسے مٹا دیا جائے


رہے نہ زد میں کسی بھی بدلتے موسم کی
نہال دل پہ وہی پھول اک کھلا دیا جائے


کسی کو پانے کا احساس اس طرح سے رہے
تو بزم دوست سے دشمن کو ہی اٹھا دیا جائے


فلک کو چھونے کی بے سود آرزو نہ ملے
میں خاک ہوں تو مجھے خاک میں ملا دیا جائے


یہی مطالبہ رضیہؔ ہے آج منصف سے
ہمارے صبر و رضا کا کوئی صلہ دیا جائے