دماغ پھر سا گیا ہے کچھ ایک سالوں سے

دماغ پھر سا گیا ہے کچھ ایک سالوں سے
خیال بھی نہیں ملتے ہیں ہم خیالوں سے


رہا ہوا جو میں زنجیر کار دنیا سے
تو کھیلتا رہا شب بھر کسی کے بالوں سے


مرا حبیب اداسی کی اور بڑھتا گیا
وہ مطمئن ہی نہیں تھا مری مثالوں سے


کوئی جواب نہیں ان اداس آنکھوں کا
مجھے بھی بھاگنا پڑتا ہے ان سوالوں سے


بس ایک میں ہی نہیں اس کے ذکر سے مربوط
اسے بھی جانا گیا ہے میرے حوالوں سے


ڈرا ڈرا ہے مری جان میری فکر کا بن
ترے خیال کے ان بھاگتے غزالوں سے