دل کا گلشن جلا گئے کانٹے
دل کا گلشن جلا گئے کانٹے
ان کی یادیں مٹا گئے کانٹے
اب ضرورت نہیں رہی گل کی
اتنی کثرت سے آ گئے کانٹے
زیست میں رہ گئی چبھن ہی چبھن
ایسا قبضہ جما گئے کانٹے
گل ہی کیا گلستاں بھی حیراں ہے
اس قدر مجھ کو بھا گئے کانٹے
اب تو خوشیوں کی بو نہیں ملتی
ہر طرف غم کے چھا گئے کانٹے
ان پہ کلیاں بھی ہو گئیں شیدا
اوس میں یوں نہا گئے کانٹے
کیا کیا تم نے اجنبی محسن
راہ سے کیوں ہٹا گئے کانٹے
اب پھٹا جا رہا ہے میرا دماغ
کیسی خوشبو بسا گئے کانٹے
میں تو محسن انہیں سمجھتا رہا
نفرتیں کیوں بڑھا گئے کانٹے
مجھ کو احساس تک نہ ہو پایا
دوست بن کر سما گئے کانٹے
ہم تمہارے بنے رہے ہم دم
خوب احساں جتا گئے کانٹے
روز و شب کا رہا نہ فرق کوئی
نیند ایسی سلا گئے کانٹے
کم نہیں ہم پہ ان کا یہ احساں
رمز دنیا بتا گئے کانٹے
کیسے ازبر کتاب ہوتی مجھے
ہر سبق پھر بھلا گئے کانٹے
جیسے ساتھی جنم کے ہوں قدسیؔ
یوں گلے سے لگا گئے کانٹے