دیواریں پیچھے جا سکتی ہیں

لگتا ہے یہ کوئی خواب ہے
ایک گنبد نما بند کمرہ ہے
جس کی دیواریں دھیرے دھیرے سکڑ رہی ہیں
میرے قریب آ رہی ہیں
دیواریں بے قرار لگتی ہیں
میرا دم گھونٹنے یا مجھے پیس ڈالنے کے لیے
ایک آواز آتی ہے
یہ دنیا ہے
میری آنکھ کھل جاتی ہے
مگر بند کمرے کی دیواریں ابھی تک سکڑ رہی ہیں
آواز آتی ہے
دیواریں پھیل کر پیچھے جا سکتی ہیں
کچھ دیر کے لیے
اگر اس دہشت کے عالم میں
تم لگا سکو ایک قہقہہ
یا لکھ سکو ایک نظم