دیوالی

دیوالی کے دیپ جلے ہیں
یار سے ملنے یار چلے ہیں
چاروں جانب دھوم دھڑاکا
چھوٹے راکٹ اور پٹاخہ
گھر میں پھلجھڑیاں چھوٹے
من ہی من میں لڈو پھوٹے
دیپ جلے ہیں گھر آنگن میں
اجیارا ہو جائے من میں
اپنوں کی تو بات الگ ہے
آج تو سارے غیر بھلے ہیں
دیوالی کے دیپ جلے ہیں
رام کی جے جے کار ہوئی ہے
راون کی جو ہار ہوئی ہے
سچے کا ہر بول ہے بالا
جھوٹے کا منہ ہوگا کالا
سچائی کا ڈنکا باجے
سچ کے سر پر صحرا ساجے
جھوٹ کی لنکا خاک بنا کے
رام اجودھیا لوٹ چلے ہیں
دیوالی کے دیپ جلے ہیں
ہندو مسلم سکھ عیسائی
مل کر کھائیں یار مٹھائی
بھول کے شکوے اور گلے سب
ہنستے گاتے آج ملے سب
کہنے کو ہر دھرم جدا ہے
لیکن سب کا ایک خدا ہے
اک ماٹی کے پتلے حیدرؔ
اس سانچے میں خوب ڈھلے ہیں
دیوالی کے دیپ جلے ہیں