ذیابیطس کا مریض کو کون سے 10 ٹیسٹ لازمی کروائے؟

 دنیا میں ذیابیطس کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور ذیابیطس کے علاج و بچاؤ کی عالمی تنظیم (آئی ڈی ایف) کے اعدادوشمار کے مطابق 2021 میں دنیا میں 537 ملین (تریپن کروڑ ستر لاکھ)افراد ذیابیطس کا شکار ہیں یعنی ہر دسواں فرد ذیابیطس کا مریض ہے۔اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو 2030 تک  643 ملین (چونسٹھ کروڑ تیس لاکھ) افراد ذیابیطس کی لیپٹ میں آجائیں گے۔

آئی ڈی ایف کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کی شرح میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔پاکستان میں ہر چوتھا آدمی شوگر کا مریض ہے۔چین اور بھارت کے بعد پاکستان دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں ذیابیطس کے پھیلاؤ کی شرح سب سے زیادہ ہے۔2021 میں پاکستان میں (تین کروڑ تیس لاکھ) 33 ملین افراد ذیابیطس  کے رپورٹ ہوئے ۔ 2019 کے بعد پاکستان میں شوگر کے مریضوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اس لیے ذیابیطس کے علاج اور بچاؤ کے لیے اس مرض کے بارے میں آگہی ضروری ہے۔اس مرض میں اضافے کی وجوہات میں  عدم توجہی ،احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنا اور بروقت تشخیص نہ ہونا بھی شامل ہیں۔ زیر نظر تحریر میں ایسے دس ٹیسٹ تجویز کیے جارہے ہیں جو ذیابیطس کے مریض کے لیے ضروری ہیں۔

یہ تحریر اسلام آباد میں واقع ذیابیطس کے علاج اور بچاؤ کا اسپتال "دی ڈایابیٹیز سنٹر" کی طرف سے جاری کردہ ہدایات سے اخذ کی گئی ہے۔ جسے  مذکورہ اسپتال کے شکریے کے ساتھ مفادِعامہ کے لیے یہاں پیش کیا جارہا ہے۔

‏1۔ شوگر ٹیسٹ ؛باقاعدگی سے

شوگر کنٹرول کرنے کے لیے باقاعدگی سے شوگر چیک کرنا ضروری ہے۔ اس سے ہمیں خون میں موجود شکر کی مقدار کا پتہ چلتا ہے۔ خون میں شکر کی سطح سے معلوم ہوتا کہ  دوا یا انسولین کی مقررہ مقدرا کی  کتنی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بھی کہ کس قسم کی غذا لینی چاہیے۔

2۔ہیمو گلوبن ٹیسٹ (A1C )؛ ہر تین یا چھ ماہ بعد 

اس ٹیسٹ (ہیموگلوبن اے ون سی) سے ہمیں ایک مخصوص مدت (اوسط تین ماہ)  میں خون میں موجود شکر (شوگر) کی اوسط مقدار معلوم کی جاتی ہے۔یہ ٹیسٹ روزانہ شوگر ٹیسٹ کرنے کی نسبت آپ کوخون میں شکر سے متعلق بہتر اور درست معلومات فراہم کرتا ہے۔اسے صرف تین یا چھ ماہ میں ایک مرتبہ کرنے کی ضرورت ہے۔

بلڈ پریشر (فشارِ خون)؛باقاعدگی سے

 جب بھی ڈاکٹر کے پاس معائنے کے لیے جائیں اپنا بلڈ پریشر (فشارِخون)  ضرورچیک کروائیں۔ہائی بلڈ پریشر خون کی شریانوں کو اسی طرح نقصان پہنچاسکتا ہے جس طرح شوگر کی مقدار میں اضافے کی وجہ سے  پہنچتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ اپنا بلڈ پریشر  130/80 سےنیچے رکھیے تاکہ مزید پیچیدگیاں پیدا نہ ہوں اور دل کی بیماری کا خطرہ نہ بڑہے۔اگر ذیابیطس کے ساتھ گردے یا آنکھوں کا مسئلہ بھی درپیش ہو تو بلڈ پریشر کو نارمل حالت میں رکھنا ازحد ضروری ہے۔متوازن غذا، باقاعدگی سے ورزش،ذہنی دباؤ یا پریشانی سے بچاؤ کی صورت میں بلڈ پریشر کی سطح کو نارمل رکھنا ممکن ہے۔

4۔  کلیسٹرول ٹیسٹ(Lipid Profile سال میں ایک بار

یہ خون میں کلیسٹرول کا مکمل ٹیسٹ ہے اسے لیپڈ پروفائل یا لیپڈ پینل بھی کہتے ہیں۔اس ٹیسٹ میں خون میں کلیسٹرول یا ٹرگ لیسرائیڈز کی مقدار کا پتا لگایا جاتا ہے۔  اچھا کولیسٹرول ہے جو دل کی بیماری سے محفوظ رکھتا ہے۔ ٹیسٹ میں دو ممکنہ نتائج آسکتے ہیں؛ ایک ہائی ڈینسٹی لیپو پروٹین (HDL) اسے اچھا کلیسٹرول کہا جاتا ہے۔اس صورت میں دل کی شریانوں میں خون نارمل انداز میں  بہتا ہے۔ جبکپ لو ڈینسٹی لیپو پروٹین (LDL) کوبرا کولیسٹرول  کہا جاتا ہے جو دل کی شریانوں میں خون کے بہاؤ میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔

5۔ آنکھوں کا معائنہ؛ سال میں ایک بار

خون میں شوگر کی مقدار کم یا زیادہ ہونے کے باعث اس کے آنکھوں پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس لیے ذیابیطس کے  مریض آنکھ کے پردے کی بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ سال میں ایک مرتبہ اپنی آنکھوں کا تفصیلی معائنہ لازمی کراوئیں۔ اگر آنکھ کی بیماری کا بروقت علم ہوجائے تو تو اس بیماری کا علاج ممکن ہے۔ لہذا اپنی آنکھوں کا باقاعدگی سے معاینہ کرواتے رہنا چاہیے۔

‏6۔ پیروں کا معائنہ؛سال میں ایک بار

شوگر کی وجہ سے کلیسٹرول کی زیادتی اورہائی بلڈ پریشر  کے باعث  خون کی گردش معمول کے مطابق نہیں ہوتی اور اعصابی نظام میں خلل پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کا براہ راست اثر پاؤں پر پڑتا ہے جس کی وجہ سے پاؤں میں سوجن، پاؤں کا سُن ہونا اور پاؤں کے تلووں میں تپش شکایت عام ہوجاتی ہے۔اس لیے  اپنے پاوٴں کا سال میں ایک مرتبہ ضرور معائنہ کروائیے۔ اس طرح آپ اپنے پیروں کو مزید پیچیدگیوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

7۔دانتوں کا معائنہ؛ چھ ماہ بعد

اگر شوگر کنٹرول میں نہ ہو  تو خون میں موجود سفید خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ یاد رکھیےخون کے سفید خلیے جراثیمی انفیکشن کے خلاف مدافعت کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنےدانتوں کی دیکھ بھال نہیں کرتے تو مسوڑھوں کی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

8۔خونی پروٹین  معلوم کرنے کے لیے پیشاب ٹیسٹ (Micro Albuminuria Test)؛ سال میں ایک بار 

یہ پیشاب کا ٹیسٹ ہے جس سے پیشاب میں موجودخون کا پروٹین (آلبو مَن پروٹین)کی مقدار کا پتہ چلتا ہے۔ مائیکروآلبومِن ٹیسٹ دراصل  گردے کی تکلیف یا گردے کے ضائع ہونے کے بارے میں معلوم کیا جاتا ہے۔یاد رکھیے کہ   ذیابیطس کے مریضوں کو گردے کی بیماری ہوجانےکا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اگر وقت پر تشخیص ہو جاےٴ تو علاج ممکن ہوتا ہے۔

9۔ بی ایم آئی ٹیسٹ(Body Mass Index) :جسمانی وزن اور قد ماپنے کا ٹیسٹ

جسم کا وزن قد کے حساب سے مناسب ہونا ضروری ہے۔ اگر قد کے حساب سے وزن زیادہ ہو تو موٹاپا ہو جاتا ہے۔ جو ذیابیطس کی ایک بڑی وجہ بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگرذیابیطس کا مریض اپنا وزن قد کے حساب سے مناسب رکھے تو ذیابیطس پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔

 

اس لیے یہ ٹیسٹ ذیابیطس کے مریض کے علاوہ عام شخص کو بھی ضرور کروانا چاہیے۔نیچے قد اور وزن کا ایک چارٹ دیا گیا ہے۔ اس چارٹ سے اپنے قد کے حساب سے اوسط وزن دیکھا جاسکتا ہے۔

‏10۔اعصابی نظام کا معائنہ؛ سال میں ایک بار

ذیابیطس کے مریض میں خون کی گردش کا نظا م ناقص ہوجاتا ہے جس سے اعصابی کمزوری پیدا ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اس بات کو یقینی بنائیے کہ آپ کےاعصابی نظام کا مکمل معائنہ ہوتاکہ جسم کے ان حصوں کی نشاندہی ہو سکےجو اعصابی درد یا کسی پیچیدگی کا شکار ہیں۔ اس مقصد کے لیے این سی وی (نرو کنڈکشن ولاسٹی) اور ای ایم جی (الیکٹرو مائیوگرافی) ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔

 

 

متعلقہ عنوانات