دھوپ ہو کہ چھا جائے پھر گھٹا جو تم کہہ دو
دھوپ ہو کہ چھا جائے پھر گھٹا جو تم کہہ دو
خواہشیں ہماری اب اور کیا جو تم کہہ دو
کچھ اداس غزلوں کے حرف میں بدل ڈالوں
آؤ ختم کر لیں یہ فاصلہ جو تم کہہ دو
تم فقط ہمارے ہو کہہ دیا رقیبوں سے
سب یقین کر لیں گے اک ذرا جو تم کہہ دو
علم ہے کہاں سب کو کیا بھلا برا کیا ہے
وہ بھلا جو تم کہہ دو وہ برا جو تم کہہ دو
مت کہو غلامی تم یہ وفا ہماری ہے
چھوڑ دیں جہاں سارا تلخیاں جو تم کہہ دو