دولت دنیا کہاں درکار ہے

دولت دنیا کہاں درکار ہے
مجھ کو تیرا آستاں درکار ہے


آپ کو بھی اک سہارا چاہیے
مجھ کو بھی اک ہم زباں درکار ہے


زندگی کی اس کڑکتی دھوپ میں
سایۂ سرد رواں درکار ہے


برق و باراں کا اڑائے جو مذاق
آج وہ عزم جواں درکار ہے


زندگی سے ہے عبارت اک جہاد
شیر کی تاب و تواں درکار ہے


تیر و نشتر شعر یوں بنتا نہیں
اک دل آتشیں فشاں درکار ہے


چاہئے اقبال کی فکر رسا
داغ کی طبع رواں درکار ہے


ہو طہارت حالیؔ و محرومؔ کی
میرؔ و مومنؔ کی زباں درکار ہے


شعر سے محظوظ ہونے کے لیے
لذت درد نہاں درکار ہے


اہل محفل کو ترنم چاہیے
شاعری ان کو کہاں درکار ہے


مرشد کامل کی مجھ کو ہے تلاش
مجلس روحانیاں درکار ہے


روح کو جس سے ملے بالیدگی
مجھ کو وہ پیر مغاں درکار ہے


من کا سارا میل جس سے دور ہو
وہ شراب ارغواں درکار ہے


ہم پہ جو گزری وہ کہنے کے لیے
حسن و اسلوب بیاں درکار ہے


زندگی کا راز پانے کے لیے
ہم کو عمر جاوداں درکار ہے


مجھ کو اپنے دوستوں سے اے بہارؔ
اک خلوص بے کراں درکار ہے