درون میکدہ کس درجہ حسرت ریز ہے ساقی

درون میکدہ کس درجہ حسرت ریز ہے ساقی
جو گرد آلود کرسی ہے تو ٹوٹی میز ہے ساقی


نہ کیوں حور جناں کے ذکر سے محظوظ ہو واعظ
یہ اس کے توسن دل کے لیے مہمیز ہے ساقی


مرے اوقات گریہ ٹائم ٹیبل پر مقرر ہیں
یہ بندہ عشق کے بارے میں بھی انگریز ہے ساقی


جلا کر رکھ دیا ہے اس نے شہر آرزو میرا
ترا دربان اصلی وارث چنگیز ہے ساقی


ذرا اس اونگھتے مے کش کی اک بھرپور چٹکی لے
گلابی ناخن تدبیر تیرا تیز ہے ساقی


وہ میرے دو نئے پیسے ہی اپنے پرس میں رکھ لے
کہ اس کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہے ساقی


رقیب رو سیہ سر پھوڑ لے گا کوہ کن بن کر
ترا شوہر خدا کے فضل سے پرویز ہے ساقی


مرا حصہ مجھے چھپ کر ہی مل جائے تو بہتر ہے
گدائے مے کدہ غیروں سے کم آمیز ہے ساقی