دریا کی تشنگی میں انساں کی بے بسی میں

دریا کی تشنگی میں انساں کی بے بسی میں
پایا تجھے ہے یا رب دل کی شکستگی میں


تیری کمی ستائے ہر غم میں ہر خوشی میں
رہتا ہے آج بھی تو اس آنکھ کی نمی میں


شاید کبھی پڑے ہوں ان پر بھی پاؤں تیرے
چوما ہے پتھروں کو ہم نے تری گلی میں


آنکھیں وہ تیرے جیسی تجھ سا حسین چہرا
ہم ڈھونڈتے رہے ہیں تجھ کو ہی ہر کسی میں


مجھ پر کھلا نہیں ہے یہ راز ہست میرا
کہنے کو خاک چھانی ہے دشت آگہی میں


روئیں بجھا کے مجھ کو پھر غم زدہ ہوائیں
میں شمع آخری تھی اس شب کی تیرگی میں


اکتا گئی ہوں شاید پتھر کی مورتوں سے
لگتا نہیں ہے اب یہ دل بھی صنم گری میں


قید حیات پر دل دیوانہ وار ناچے
مسرور ہے کہ آیا تیری سپردگی میں


کافر جو کہہ رہے تھے سب جانتے تھے جیناؔ
پیشانی نقش پا پہ رکھی تھی بے خودی میں