چین اپنی معیشت میں بہتری کے لیے کیوں فکر مند ہے؟

پاکستان اس وقت ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ آٹا ، دالیں ، گھی ،چینی سے لے کر تیل ، گیس اور بجلی تک ضروریات زندگی میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ مہنگائی میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے آمدن میں اسی رفتار سے کمی بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں ۔ آمدن کے ذرائع رفتہ رفتہ گھٹ رہے ہیں ۔ بیروزگاری میں تیزی کا گراف اوپر جا رہے ہیں ۔ عوام معاشی بوجھ کے نیچے دبتی جا رہی ہے۔

جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں تو خبر آئی کہ حکومت نے پیٹرول 30 روپے مزید مہنگا کردیا ہے۔ الف یار ویب سائٹ پر گزشتہ روز تیل کے حوالے سے ہی ایک تحریر شائع ہوئی ہے۔ یہ تحریر پڑھنے کے لیے تیل کیوں مہنگا کیا گیا؟ کلک کیجیے: کیا تیل دنیا سے ختم ہونے والا ہے؟ خبردار تیل مہنگا ہونے والا ہے

  مہنگائی کب ختم ہوگی؟

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملکی قیادت معیشت کی ابتری کو دیکھتے ہوئے اس مسئلے پر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جاتے۔ حکومتی سطح پر غیر معمولی ہلچل نظر آتی، ماہرین معاشیات کی خصوصی میٹنگز ہوتیں، اجلاس اور سیمینارز منعقد کیے جاتے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جاتا اور ایک ہنگامی معاشی پالیسی وضع کی جاتی۔ ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کر دی جاتی۔ لیکن ہمارے ہاں کوے کے حلال یا حرام ہونے کے مسئلے کا فیصلہ کرنا زیادہ اہم ہے۔

پاکستان اپنے دوست چین سے ہی کچھ سیکھ لے!

کورونا کا آغاز چین کے صوبے ووہان سے ہوا تھا جس کے بعد ووہان کو ہنگامی طور پر ووہان میں لاک ڈاؤن لگا دیا۔ چین کی حکومت نے اپنی بہترین پلاننگ کی وجہ سے جلد ہی اپنے ملک کو کرونا فری کردیا جبکہ پوری دنیا ابھی لاک ڈاؤنز اور سفری پابندیوں کے دور سے گزر رہی تھی۔ چین دنیا کی دوسری بڑی اکانومی ہے۔ لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیوں کی وجہ سے پوری دنیا کی طرح چین کی معیشت کو بھی بہت نقصان پہنچا تھا جس کی جلد ہی شاندار پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی وجہ سے کافی حد تک تلافی کر لی گئی تھی۔

اب جب کہ پوری دنیا وباء کے دنوں کے ان تباہ کن اثرات سے رفتہ رفتہ نکل رہی تھی، مارچ اور اپریل کے مہینوں میں دوبارہ چین میں کرونا وائرس کی بیماری نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کرونا کیسز کا گراف آسمان کو چھونے لگا۔ چینی حکومت نے فوری طور پر منتخب علاقوں میں لاک ڈاؤن کر دیا تاکہ اب کی بار زیادہ نقصان سے بچا جاسکے۔ شنگھائی شہر کو چین کی معیشت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ لاک ڈاؤن کے دوران شنگھائی کو بھی بند کرنا پڑا جس کا چین کی اکانومی پر بہت منفی اثر ہوا۔ چینی جریدے" گلوبل ٹائمز" کے مطابق حالیہ لاک ڈاؤن کے نقصانات بعض شعبوں میں 2020 کے آغاز میں ہونے والے نقصانات سے بھی زیادہ رہے۔

چینی معیشت کو درپیش ان گھمبیر چیلنجز کو دیکھتے ہوئے چینی حکومت نے 25 مئی 2022 کو ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا جس میں 10,0000 حکومتی عہدیداروں نے شرکت کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس ویڈیو ٹیلی کانفرنس میں صوبائی، ضلعی اور تحصیل کی سطح پر خدمات سر انجام دینے والے حکومتی افسران نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے عہدیداروں سے ملک کو درپیش معاشی مسائل کے حل کے لیے نہ صرف اپنی قیمتی آرا کی گئیں بلکہ ان آراء کی روشنی میں اہم فیصلے بھی کیے گئے۔

چین مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے کیا کرے گا؟

ان اقدامات میں ٹیکس ری فنڈز میں اضافے، چھوٹے کاروبار کے لیے دیے گئے قرضہ جات کی مدت میں توسیع  اور ایوی ایشن انڈسٹری کے لیے قرضے دینے کے اقدامات بھی شامل ہیں ۔ چین میں ایوی ایشن کا شعبہ حالیہ بحران میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے ۔  ان 33 اقدامات پر عمل درآمد کروانے کے 12 صوبوں میں خصوصی ٹاسک فورسز بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ مئی کے دوران چین کے 30 شہروں میں جزوی یا مکمل لاک ڈاؤن رہا ہے جس کی وجہ سے بائیس کروڑ کے قریب افراد کی زندگیاں متاثر ہوئیں جو ہمارے ملک کی کل آبادی کے برابر بنتی ہے ۔ حالیہ 33 اقدامات کے نتیجے میں ان شہریوں کی جان و مال اور کاروبار کے تحفظ کو یقینی بنانے پر فوکس کیا گیا ہے ۔

22 کروڑ آبادی چینی آبادی کا اتنا بڑا حصّہ نہیں ہے لیکن وہاں کے بڑوں کے لیے اس قدر اہم ہے کہ ایک نہیں دو نہیں ہزار نہیں ایک لاکھ عہدیداران سر جو کر بیٹھ گئے ۔۔۔نہ صرف تجاویز دیں ۔۔۔ فیصلے کیے ۔۔۔  بلکہ ان فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے ٹاسک فورسز بھی تشکیل دے دیں ۔ پاکستان میں معاشی حالات چین سے کہیں بد تر ہیں ۔۔۔ اس بحران سے متاثر ہونے والے 22 کروڑ عوام اس کا سب کچھ ہیں ۔۔کل کائنات ہیں ۔ 25 مئی کو جب چین میں اعلیٰ دماغ ملکی معیشت کے استحکام کے سر جو کر بیٹھے ہوئے تھے ہمارے لوگ ایک دوسرے کا سر پھوڑ رہے تھے۔

ہم مہنگائی کے خاتمے کے لیے احتجاج کریں گے  

وطنِ عزیز پاکستان کے بڑوں کو بھی مل بیٹھ کر وطن عزیز کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا  بات کرنے سے ہی بات بنے گی ۔ تصادم اور خلفشار مسائل میں سلجھاؤ لانے کی بجائے انہیں مزید الجھا دے گا۔آج کل وزیر اعظم شہباز شریف چارٹر آف اکانومی کا بار بار ذکر کررہے ہیں، وہ اس چارٹر آف اکانومی کی جادو کی پٹاری کب کھولیں گے۔۔ یہ خدا جانے کب ہو لیکن سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر 4 جون بروز جمعہ کواحتجاج کی کال دے دی ہے۔۔۔منیر نیازی سے معذرت کے ساتھ

اک اور "احتجاج" کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک "احتجاج" کے پار اترا تو میں نے دیکھا

حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں اور پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل بیٹھے اور اس معاشی بحران کا کوئی حل نکالے۔ ہمارے بڑوں کو بڑا کردار دکھانا ہوگا تاکہ وطن عزیز میں بہاریں پھر لوٹ آئیں۔ بیزار چہرے کھل اٹھیں اور مایوس آنکھیں امید کے نور سے جگمگا اٹھیں!

چین کے پلان 33 کے بارے میں مزید جاننے کے لیے سی این این کی یہ رپورٹ ملاحظہ کیجیے:

 

متعلقہ عنوانات