چھوڑ دے
کوئی آئے نہ آئے
تو آس لگانا چھوڑ دے
بہنے نہ لگے اشک آنکھوں سے تیری
دل سے آنکھوں کا رشتہ نبھانا چھوڑ دے
دوڑے جاتی ہے مسکراتے اک دستک پر
وہ محبت ہے اداس ہو در سے اسے واپس موڑ دے
بن جا بے جان اک زندہ لاش
اکیلے بیٹھ اور کمبخت سوچنا چھوڑ دے
حال تجھ سے دیکھا نہیں جاتا تو نہ دیکھ
پتھر اٹھا اور اپنا آئینہ توڑ دے
تو کب سے کسی کے لیے خاص ہونے لگی
بس کر اب ان باتوں میں آنا چھوڑ دے
ٹوٹتے ٹوٹتے جو پھر ٹوٹ گیا
اسے اٹھا اور سینہ میں واپس جوڑ دے
درد سے اٹھتی ہے اور درد میں گرتی ہے
سنبھال خود کو اور اب لکھنا چھوڑ دے