چھتیں اڑی ہیں دراڑیں پڑیں مکانوں میں
چھتیں اڑی ہیں دراڑیں پڑیں مکانوں میں
ستم کی گھاس اگی ہے نگار خانوں میں
لہو لہو تھا بدن اس کا ہاتھ ٹوٹے تھے
حنا حنا وہ پکاری تھی آستانوں میں
گھروں میں آج وہ کرب و بلا کا منظر تھا
کہ سہمے سہمے پرندے تھے آشیانوں میں
وہ جن کے نام پہ نکلیں گی کل کی تعبیریں
کئے ہیں خواب مقفل وہ قید خانوں میں
وہ جس کا وار موئثر تھا ضرب کاری تھی
کھڑا ہوا تھا وہ قاتل بھی پاسبانوں میں
زمیں پہ ظلم بہت ہے خدا سے کہہ دیتے
گزر ہمارا اگر ہوتا آسمانوں میں