چہروں پہ خامشی کی لو روح سے ہم کلام ہیں

چہروں پہ خامشی کی لو روح سے ہم کلام ہیں
یعنی جو غرق عشق ہیں ان کو مرے سلام ہیں


خلوت دل ترے لیے آؤں گی جلد لوٹ کے
ملنے کو آئے میہماں گھر کے دو چار کام ہیں


کیسے ہیں میرے اقربا کیسی ہوں میں پتا نہیں
باتیں ہیں خود سے رات دن بھولے تمام نام ہیں


روز ازل سے ہیں جدا عقل و جنوں کے راستے
یعنی ترے خیال میں دونوں کے ایک دام ہیں


عشق کی اولین شرط ہے کوچۂ یار سے نکل
ہوش سے بے نیاز ہو بھول جا صبح و شام ہیں


کار فراق و ہجر تو عجلت کا کام ہی نہیں
لمحے ترے خیال کے تجھ سے بھی تیز گام ہیں