چند تنکے تھے جو انجمؔ آشیانے کے لئے

چند تنکے تھے جو انجمؔ آشیانے کے لئے
برق ان کو بھی چلی آئی جلانے کے لئے


آرزوئیں حسرتیں وعدہ و پیمان وفا
سرخیاں کتنی ملی ہیں اک فسانے کے لئے


عمر بھر روتے رہے اشکوں سے دامن تر رہا
عمر بھر ترسا کیے ہم مسکرانے کے لیے


کچھ تو کرنا ہی پڑے گا اے حیات مستعار
کاروبار زندگی انجمؔ چلانے کے لئے


شعر گوئی کی میسر ہے فراغت اب کسے
دام دنیا میں پھنسے ہم آب و دانے کے لیے