چاروں جانب موسم گل ہے پاگل یادیں تنہائی
چاروں جانب موسم گل ہے پاگل یادیں تنہائی
من ساگر میں جاگ اٹھی ہیں گزری راتیں تنہائی
میں سوچوں کی جھیل کنارے آس جزیرے دیکھ رہی ہوں
سرکش موجیں حرف گھروندے میری غزلیں تنہائی
تو اترے زخمی سورج کی کرنوں کو تصویر کرے
میں لفظوں میں باندھ رہی ہوں ساری شامیں تنہائی
دست صبا نے پھر سے میرے دامن میں مہکا دی ہیں
چٹکی کلیاں بھینی خوشبو تیری باتیں تنہائی
اب بھی تیری یادوں میں مثل چراغاں روشن روشن
ساتھ نبھانے کی وہ تیری ساری قسمیں تنہائی
شاید فرخؔ ان چڑیوں کی قسمت میں ہی لکھا ہے
بوڑھا برگد ڈھلتے سائے پھیلی شاخیں تنہائی