چاندنی رات اور پریاں

جدھر دیکھیے چاندنی بہار
پہاڑوں پہ چھایا ہوا ہے خمار
پرند آشیانوں میں کھوئے ہوئے
درندے نشے میں تھے سوئے ہوئے
زمیں تا فلک نور ہی نور تھا
ہر اک پیڑ جنگل میں مسرور تھا
خلا میں بکھرتا سا چاندی کا رنگ
فضا میں بجے جس طرح جل ترنگ
جو دیکھا تو اک سمت چشمہ رواں
یہ پریوں کی آمد یہ نوری سماں
گئے گھنگھرؤں کے چھناکے بکھر
ہوئی بزم عشرت یوں ہی جلوہ گر
زمرد پری ایک پکھراج تھی
بہت ساری پریوں کی سرتاج تھی
ٹکے جس کے کپڑوں میں لعل و گہر
وہ جھم جھم جھمکتی ادھر سے ادھر
شرارت جو سوجھی گئی آنکھ کھل
دیا ساری پریوں نے بچوں کو جل