چاند پر کیوں میں اکیلی جاتی
چاند پر کیوں میں اکیلی جاتی
ساتھ کوئی تو سہیلی جاتی
آؤ مل جل کے سہیں ہجر کی دھوپ
مجھ سے تنہا نہیں جھیلی جاتی
بولنا مجھ سے نہ تم بند کرو
ہر طرف بات ہے پھیلی جاتی
ہم اگر عقل کو درباں کرتے
ہاتھ سے دل کی حویلی جاتی
ہائے صندل کے درختوں کی یہ راکھ
جان خوشبو کی نہ لے لی جاتی
بن تو سکتا تھا نیا اک کمرہ
اپنے آنگن کی چنبیلی جاتی
پیاس جاتی نہ اگر ساحل پر
کیوں سمندر میں اکیلی جاتی
چاند جھانکے جو کچن میں پروینؔ
مجھ سے روٹی نہیں بیلی جاتی