بوئے گل موج پر آتی ہے بہت رات گئے

بوئے گل موج پر آتی ہے بہت رات گئے
روح احساس پہ چھاتی ہے بہت رات گئے


غم کی پروائی سنکتی ہے تو ہر چوٹ مری
معجزہ اپنا دکھاتی ہے بہت رات گئے


یہ بھی اس ناز تغافل کا گلہ ہے اے دل
آہ جو ہونٹ پہ آتی ہے بہت رات گئے


کون روتا ہے لئے ہاتھوں پہ ارمان کی لاش
ایک آواز سی آتی ہے بہت رات گئے


اپنی آوارہ مزاجی کو دعا دیتا ہوں
کو بہ کو مجھ کو پھراتی ہے بہت رات گئے


ایک نادیدہ اجالے کی تمنا میں حیات
اپنی پلکوں کو سجاتی ہے بہت رات گئے


شوخی جب رنگ پہ آتی ہے کسی کی ناظمؔ
دل کی تصویر بناتی ہے بہت رات گئے