بے مہریٔ وفا نے پوچھو نہ کیا دیا ہے

بے مہریٔ وفا نے پوچھو نہ کیا دیا ہے
آہ وداع شب نے سینہ جلا دیا ہے


نالہ کناں ہیں بلبل بھنوروں میں بے دلی ہے
اب کے وہ بجلیوں نے گلشن جلا دیا ہے


بازی پہ اپنے سر کی اک حسن بے بدل سے
ہم نے محبتوں کا نعرہ لگا دیا ہے


اندھی محبتوں نے ہر صاحب وفا کو
دریا دکھا دیا ہے صحرا دکھا دیا ہے


پھرتے ادھر ادھر ہیں لوگو مکاں بہ سر ہیں
مدت سے چین اپنا ہم نے گنوا دیا ہے


لہریں اچھل پڑیں ہیں اک نازنیں نے اپنے
پانی میں پاؤں رکھ کر محشر اٹھا دیا ہے


جس کو بھی سونپ ڈالا عادلؔ نظام دل کا
مشکل اسی نے میرا جینا بنا دیا ہے