بے کیف روز و شب بھی تمہارا خیال بھی
بے کیف روز و شب بھی تمہارا خیال بھی
پہلو میں تم بھی اور دل پائمال بھی
ہم ٹوٹتے ہی جاتے ہیں ہر روز روز و شب
گو میرے سامنے ہے تمہاری مثال بھی
جینے کے طرز و طور پہ ماضی کی ہے گرفت
اب ذہن پائمال سے ماضی نکال بھی
بالائی منزلوں سے مناظر ہیں خوب تر
بنیاد پہ ہے ضرب عمارت سنبھال بھی
سکے کے دونوں رخ پہ ہمارے نشان ہیں
انگشت خوش خبر سے وہ سکہ اچھال بھی
انسان بھی پرند بھی سننے کو بے قرار
داؤدی لحن اور اذان بلال بھی
اب آ کے سرنگوں بھی ہوئی ہیں حضور میں
جب ان کے پاس کچھ نہ رہے یرغمال بھی
سبز اور نیلے رنگ کا جوڑا غضب ہوا
وہ چہرہ بھی گلاب تھا اور لب تھے لال بھی
کب تک رہیں اداس رہیں کب تلک ملول
اب تھوڑا دھول دھپا ہو تھوڑا دھمال بھی