بے چہرگی

حسب معمول ٹیرس گارڈن پربانس کی بنی جھونپڑی کے ایک گوشے میں ایژل پر لگے کینوس پہ میں نئی پینٹنگ کے اسکیچ کی ابتدا کر رہی تھی۔ چارکول تیزی سے نقش بنارہاتھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اپنے تخلیقی کاموں کے لیے اس سے مناسب کوئی دوسری جگہ مجھے متاثرنہ کرتی۔ گھر کے مصروفیت بھرے ماحول، کال بیل اور ٹیلی فون کی ٹرن ٹرن سے جو ذہنی بکھراؤ ہوتا تھا یہ خوبصورت جگہ ان سب چیزوں کاتوڑ تھی۔ صبح سویرے تقریباً ایک گھنٹہ پیڑپودوں کونہلا دُھلاکر جوتازگی میسر ہوتی وہ یقیناًبڑی فرحت بخش ہوتی اور تمام دن تروتازہ رکھتی۔ اتنا ہی نہیں اس ماحول سے میرے تخلیقی ذہن کو بھی بڑی توانائی ملتی۔ جیسے ہی اسکیچ تیار ہوا اور میں نے پلیٹ میں رنگوں کوسجایا آذر دوکپ چائے لیے بغل میں اخبار کا پلندہ دبائے نزدیک ہی آ بیٹھے۔چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے عادت کے مطابق تصویر پر رائے زنی کرنے لگے۔’’یہ عورت کی مسخ شدہ تصویر تمہارے ذہن پر سوار ہوکر رہ گئی ہے۔ کتنی پینٹنگس بناؤگی اس خیال کو لے کر؟‘‘.......پتہ نہیں۔ شاید...میں نے مختصر سوجواب دیا۔اس بات کو لے کر گفتگو مزید طویل ہوسکتی تھی اور ہمیشہ کی طرح بحث کا رخ اختیار کرسکتی تھی لیکن اس وقت میں اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھی، لہٰذااپنے کام میں منہمک ہوگئی۔ اچانک بھن بھن کرتا ایک سیاہ بھنورا نہ جانے کدھر سے بھٹک کر اِدھر آنکلا تھا——— رنگ برنگی تتلیاں تو اکثر آیاکرتی تھیں اور فضا میں رنگ بکھیرکرخاموشی سے غائب ہوجاتی تھیں۔کبھی کبھی کچھ یادیں بھی تازہ کرجاتی تھیں۔ لیکن اس بھنورے کی آواز ناقابل برداشت تھی اور ذہن کو منتشر کررہی تھی۔ میں نے شی شی کی آواز سے اپنے ہاتھ کوہوا میں لہراکر بھنورے کو بھگانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں بھاگا۔ پورا ٹیرس چھوڑ کر وہ میرے اردگرد چکرلگاتا رہا اور اپنا راگ الاپتا رہا۔ آذر مسکراتے ہوئے اٹھ کر چل دیئے۔ ذہن منتشر ہونے سے میرابھی موڈ خراب ہوگیاتھا لہٰذا رنگوں کو ایسے ہی چھوڑکر کچھ دیر کے لیے اٹھ جانا ہی مناسب سمجھا۔ لیکن حیرت اس بات سے ہوئی کہ وہ بھنورا اب اکثر ٹیرس پر آنے لگا۔ ٹیرس پر انتہائی خوبصورت خوشنما پھول کھلے ہوتے گلاب کی رنگ برنگی پھولوں بھری شاخیں ،لہلہاتی جوبن اگلتی دھوپ کی سنہری شعاؤں سے نہاتی ہوتیں لیکن اس بھنورے کو ان میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی۔ مجھے غصہ بھی آتا، میں اپنی پینٹنگ کے لیے رنگوں کے امتزاج اور احساس کی عکس بندی میں محو ہوتی اور وہ بھنبھناتانہ جانے کدھر سے نکل آتا۔ کئی منٹ تک میرے اردگرد رقص کرتا اورپھرغائب ہوجاتا۔ ایسے ہی ایک صبح اس کی بھنبھناہٹ بھری آواز اور پری کرما سے پریشان ہوکر پاس رکھے ہوئے کاغذات سے میں نے اس پر نشانہ سادھنے کی کوشش کی۔ وہ گرتے گرتے سنبھلا کچھ ہڑبڑایا اورلڑکھڑایا۔اسی ہڑبڑاہٹ اور لڑکھڑاہٹ میں وہ میرے ہونٹ سے ٹکراگیا۔ اس کا پتھر جیسالمس میرے ہونٹ پرنشان چھوڑ گیا۔ کئی روز تک نشان کی مخصوص جگہ سے میراہونٹ سوجارہا۔ سوجاہوا ہونٹ دیکھ کر ہرکسی کی طرح آذر نے بھی پوچھا ’’یہ کیا ہوگیا؟‘‘ جب میں نے بھنورے کوبھگانے اورہونٹ سے ٹکرانے کی روداد سنائی تو وہ ہنسے اور مسکراتے ہوئے جملہ ٹانکا...’اوہو ... بھنورے منڈلارہے ہیں ہماری بیگم پر.......،اس کی اتنی جرأت کہ لب ورخسار تک آپہنچے.......‘‘
’جی جناب... سوچ لیجیے... آپ کا رقیب پیداہوگیا ہے‘ہم دونوں ہی ہنس پڑے... لیکن وہ پھر نہیں آیا ۔یاتو کہیں راستہ بھٹک گیا یا شاید میری طرح اس کے نازک جسم پر بھی چوٹ لگی ہو اور وہ زخمی ہوگیا ہو۔ میں اپنی اس حرکت پر شرمندہ بھی تھی اور پچھتابھی رہی تھی....... بیچارہ.......
مجھے محسوس ہوااس کے نہ آنے سے میں بے چین ہوں۔ میرے کان اس کی آواز کے منتظر تھے اور نظریں متلاشی۔ کئی دن کے بعد اس کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی میں نے گردن گھماکر ادھراُدھر دیکھا وہ جھونپڑی کی چھت میں چکر لگارہاتھا اورخوش وخرم تھا۔ اس کی آمد مجھے بالکل ایسی لگی جیسے کسی کو یاد کیا اور وہ آگیا۔ مجھے اس کی ذہانت پرتعجب ہوا،کیونکہ اس دن وہ میرے قریب بالکل نہیں آیا۔
اب آہستہ آہستہ میں اس کی آمد اور گنگناہٹ کی عادی ہوگئی تھی۔ وہ جب بھی آتا میں کام چھوڑ کر صرف اسے دیکھتی۔ وہ انتہائی خوبصورت تھا۔ اس کے مخملی جسم پر بلا کی چمک تھی۔ اس کے سیاہ رنگ میں نیلا، پیلا،ہرا اور سنہرارنگ شعاؤں کی طرح جھلملاتاتھا بالکل قوس قزح کی طرح۔ اس کے جسم کی بناوٹ میں بے پناہ مردانہ حسن تھا۔ اس کی گنگناہٹ میں ایک ترنم تھا۔ کبھی کبھی مجھے شبہ ہوتا کہ اسی نشیمن میں کہیں چھپ کر اس نے اپناگھر آبادکرلیاہے اور میری موجودگی کااحساس ہوتے ہی وہ باہر نکل آتا ہے۔ اب وہ مجھ سے کافی مانوس ہوگیا تھا۔
اتفاق سے مجھے کئی روز کے لیے شہر سے باہرجاناپڑا۔ واپس آئی توحسب معمول مشغول ہوگئی۔ ایژل پرلگی پینٹنگ کو مکمل کرنے کے ارادے سے میں نے ٹیرس کارخ کیا لیکن کافی وقت گزر جانے کے بعدبھی وہ بھنورا نہیں آیا۔ شاید اس نے اپناگھر تبدیل کرلیا ہو۔ یا اپنے اوقات میں تبدیلی کرلی ہو۔ یاشاید کہیں اور مصروف ہو۔ یا کسی طویل سفر پر نکل گیا ہو۔ کئی دن کی مسلسل توجہ اورمحنت کے بعد پینٹنگ مکمل صورت اختیار کررہی تھی۔ آذر بغور دیکھ رہے تھے۔حسب عادت اپنی رائے کااظہارکرنے لگے۔ یہ جو مسخ شدہ چہرے پرتم نے آنکھیں نمایاں کردی ہیں اس سے اس پینٹنگ کی یعنی تمہارے خیال کی معنویت مزید بڑھ گئی ہے۔‘
میں ہلکے سے مسکرادی۔
اس روز یوں ہی میں آذر سے کہہ بیٹھی ’اب وہ ہماراعاشق بھنورا نہیں آتا نہ جانے کہاں چلا گیا؟‘
اخبار سے نظریں ہٹاکر وہ بڑے اطمینان سے بولے ’’میں نے اسے ماردیا۔‘‘
’’ماردیا.......مگرکیوں؟‘‘مجھے اپنے جسم میں ہلکا ہلکا رعشہ محسوس ہونے لگا۔
’’کیوں ماردیابھئی؟‘‘
’’ارے میں اخبار پڑھ رہاتھا۔ سالے نے بھُن بھُن کرکے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اخبار پڑھنا مشکل کردیا۔ بے وقت ڈسٹرب کرتا تھا۔‘‘
’’ بس.....اتنی سی بات؟‘‘
میں ہکّا بکّا ان کا منہ تک رہی تھی۔
ہمیشہ کی طرح ہنسنے مسکرانے والے آذر مجھے کچھ بیمار سے لگ رہے تھے۔ میری نظریں کینوس پر چلی گئیں اور یہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی کہ..... مسخ چہرہ خودبہ خود اپنی ہیئت بدل رہاتھا۔