بشر کی زد میں جنوں بھی ہے آگہی بھی ہے
بشر کی زد میں جنوں بھی ہے آگہی بھی ہے
یہ مشت خاک فرشتہ بھی آدمی بھی ہے
ہزار حیف وہی دشمنی پہ ہیں مائل
وہ لوگ جن پہ ہمیں حق دوستی بھی ہے
دیار عشق میں ایسے گدا بھی دیکھے ہیں
کہ جن کے زیر کف پا شہنشہی بھی ہے
فسانہ جس کو سمجھ کر بگڑ رہے ہو تم
جو سن سکو تو وہ احوال واقعی بھی ہے
ہوس شریک ہو اس میں تو موت ہے ورنہ
جو صدق ہو تو محبت میں زندگی بھی ہے
ہر ایک تار رگ جاں میں نغمگی بھر دی
ستم کہ اس پہ یہ تلقین خامشی بھی ہے
وفا کا ذکر تو کرتے ہیں رات دن سب لوگ
وفا زمانے میں لیکن کہیں رہی بھی ہے
پیام وصل دیا ہے ہمیں عدو کے ہاتھ
کرم کے ساتھ ادائے ستم گری بھی ہے
یہ دل جو واقف اسرار دو جہاں نکلا
خوشا نصیب کہ یہ خود سے اجنبی بھی ہے
سرور عشق کا ہے ظرف دل پہ دار و مدار
یہ دائمی سا نشہ بھی ہے عارضی بھی ہے
تو پی کے لطف اٹھاتا ہے یا بہکتا ہے
اٹھا کہ شیشے میں اک دیو بھی پری بھی ہے
ہجوم غم کے اندھیرے بھی دل میں ہیں لیکن
کسی کی یاد کی اجلی سی روشنی بھی ہے
رہین وسعت داماں ہے عشق کی خیرات
سخی کے گھر میں کسی بات کی کمی بھی ہے