بس گیا ہے وہ چاند پر جا کر

بس گیا ہے وہ چاند پر جا کر
آؤ ملتے ہیں اس کے گھر جا کر


رخ بدل کر قریب سے گزرا
بات کی اس نے دور تر جا کر


وہی ماحول ہے وہی کہرام
ہم نے دیکھا نگر نگر جا کر


تم کو جانے تو دوں سوال یہ ہے
آئے واپس نہ تم اگر جا کر


وہی چہرہ تھا شاہکار ازل
بس وہیں رک گئی نظر جا کر


آسماں ہے ہمارے پاؤں تلے
کیوں زمیں سے لگے نہ سر جا کر


اپنے آنگن کو کہہ رہے ہو اجاڑ
دیکھ آئے ہو کس کا گھر جا کر