برباد محبت ہو کر بھی جینے کا سہارا ہو نہ سکا
برباد محبت ہو کر بھی جینے کا سہارا ہو نہ سکا
اک دل پہ بھروسہ تھا اپنے وہ بھی تو ہمارا ہو نہ سکا
جلوؤں کی فراوانی توبہ دم بھر میں ہوئیں خیرہ نظریں
وہ سامنے بے پردہ تھے مگر ہم سے ہی نظارہ ہو نہ سکا
آنکھوں کی زبانی شکوۂ غم کرنا تھا بہت ان سے لیکن
خود حسن پشیماں ہو جاتا یہ ہم سے گوارا ہو نہ سکا
مانا کہ بھری محفل تھی مگر کافی تھی مجھے دزدیدہ نظر
تسکین دل مضطر کے لئے اتنا سا اشارا ہو نہ سکا
غیروں کی طرح منہ تکتے رہے ہر ایک کا ہم اس محفل میں
آنکھوں میں چھلک آئے آنسو پھر ضبط کا یارا ہو نہ سکا
آئی جو ادھر موج طوفاں کشتی تھی شکستہ ڈوب گئی
افسوس پیام عافیت دریا میں کنارا ہو نہ سکا
ہر بزم نشاط اے عیشؔ ہوئی اس شوخ کے جلوؤں سے روشن
کاشانۂ غم میں جلوہ فگن لیکن وہ دل آرا ہو نہ سکا