بڑے عجیب مناظر نظر سے گزرے ہیں
بڑے عجیب مناظر نظر سے گزرے ہیں
جب اہل ہوش تری رہ گزر سے گزرے ہیں
مسافران رہ زیست کا شمار کہاں
نہ جانے قافلے کتنے ادھر سے گزرے ہیں
تری تلاش میں دنیا کو چھان ڈالا ہے
تری تلاش میں ہر رہ گزر سے گزرے ہیں
میں جانتا ہوں وہی دل کو دل بنا دیں گے
مصیبتوں کے جو طوفان سر سے گزرے ہیں
یہ کہہ رہے تھے فرشتوں سے میکدے والے
ابھی جناب منورؔ ادھر سے گزرے ہیں