بازگشت چار سو صداؤں کی

بازگشت چار سو صداؤں کی
بات کیا کیجیے نظاروں کی


دل میں خوشبو بسی ہے صندل کی
رقص کرتی ہوئی فضاؤں کی


سات رنگوں کی قوس ہے ہر سو
پھول در پھول ان قطاروں کی


قصۂ ہجر کی کہانی میں
بات ہے صرف چاند تاروں کی


ہم نے اوڑھی ہے اک سیاہ چادر
آپ کے زلف کی گھٹاؤں کی


حسن کا کیا موازنہ کیجے
خود وضاحت ہو تم بہاروں کی


دھوپ جیسی تمازتیں ہر دم
بات ہی اور ماں کی چھاؤں کی


ہم نے تو خود پہ انحصار کیا
کوئی حاجت نہیں سہاروں کی