بات ہے آپ کی غضب کی بات

بات ہے آپ کی غضب کی بات
کاش فرماتے کوئی ڈھب کی بات


مختلف ہے زبان دشمن و دوست
ایک ہوتی نہیں ہے سب کی بات


جھنجھنا اٹھے ساز دل سب کے
الاماں تیرے زیر لب کی بات


آشیانہ کہاں کہاں یہ قفس
اب کسے یاد ہوگی جب کی بات


دل نے آخر نگاہ کو ٹوکا
بے ادب کہہ گیا ادب کی بات


درد دل پوچھ درد والوں سے
جاں بہ لب جانے جاں بہ لب کی بات


موسم گل پہ تبصرہ ہے عبث
غنچہ و گل سے تم نے کب کی بات


سب کے لب پر ہیں تذکرے کل کے
کوئی کہتا نہیں ہے اب کی بات


شمع روشن ہوئی ہے آخر شب
صبح کو یاد آئی شب کی بات


دل کو بھائی بس ان کی بات اشرفؔ
یوں تو سننے کو سن لی سب کی بات