بات بے بات یہ طعنہ یہ ملامت کیا ہے

بات بے بات یہ طعنہ یہ ملامت کیا ہے
یہی ہوتی ہے محبت تو عداوت کیا ہے


کروٹیں لیتا ہے ہر درد ترا صبح تلک
چاندنی رات سے اے دل تجھے وحشت کیا ہے


ایک اس کے لیے کتنوں سے برائی لے لی
اب خدا جانے اسے مجھ سے شکایت کیا ہے


اک یقیں کی ہے حرارت کہ کوئی ہے اپنا
اور اس کے سوا جسموں میں حرارت کیا ہے


جب زمینوں سے نئی کوئی تعلق ہی نہیں
کوئی پوچھے ہمیں ہجرت کی ضرورت کیا ہے