بارشوں میں بھیگنے کی اب مجھے فرصت نہیں
بارشوں میں بھیگنے کی اب مجھے فرصت نہیں
موسموں کے رنگ میں پہلی سی وہ حدت نہیں
تلخیاں مصروفیت نے کچھ بڑھا دیں اس قدر
سچ کہوں شیریں دہن سے مجھ کو تو نفرت نہیں
حسن کی تقسیم میں ہی رہ گئی کوئی کمی
ڈھونڈھتا ہے دل جسے وہ شہر میں صورت نہیں
چاہتا ہے جی کہ یہ بھی ساتھ ہو اور وہ بھی ہو
کیا کریں پر جیب میں اس عیش کی قیمت نہیں
روکنا تھا دور اول ہی کے نعروں کو وہاں
اب جنون شہر پر پاؤ گے تم قدرت نہیں
دل تو دل کاجل بھی اب تو لب کشا ہونے لگے
اس لیے سیماؔ ترے الفاظ کی حاجت نہیں