باندھ کر کمر جب بھی ہم پئے سفر نکلے

باندھ کر کمر جب بھی ہم پئے سفر نکلے
زندگی کے سب رستے تیری رہ گزر نکلے


سوچتے ہیں کیوں آخر ذوق سجدہ ریزی میں
ہم جہاں جبیں رکھیں وہ ترا ہی در نکلے


جو تھے ناپنے والے زخم دل کی گہرائی
اپنی شوخ نظروں سے کتنے بے خبر نکلے


سوچتے ہیں کیا ہوگا حال پھر بہاروں کا
شہر لالہ و گل سے ہم جو روٹھ کر نکلے


وقت کے اندھیرے میں زیست کی سیاہی میں
روشنی کے افسانے کتنے مختصر نکلے


حسن آرزو کس کی عشق مدعا کس کا
اس ہجوم حیراں میں دونوں بے خبر نکلے


ہم جنہیں سمجھتے تھے نرم رو حسیں سائے
وہ سواد صحرا کی تیز دوپہر نکلے


میکدے کے دروازے بند ہو گئے ناظمؔ
تشنگی مقدر کی لے کے ہم جدھر نکلے