باد و باراں کی نگاہوں میں نمی اچھی لگی
باد و باراں کی نگاہوں میں نمی اچھی لگی
ہم کو اپنی زندگی کی بیکلی اچھی لگی
قدر کب اس زندگی کی زندگی میں ہو سکی
موت آئی روبرو تو زندگی اچھی لگی
بڑھ کے جس نے تھام لی لغزش مری بے ساختہ
آج اس معصوم کی یہ سادگی اچھی لگی
گونج پر زنجیر کی اک رقص بسمل نے کیا
ظلم کی وحشی فضا میں نغمگی اچھی لگی
برملا کچھ کہہ دیا کچھ کہتے کہتے رک گئے
ہم کو اس کی اک کہی اک ان کہی اچھی لگی
بار تھا جس کی طبیعت پر سدا ذوق سخن
آج اس کو بھی ہماری شاعری اچھی لگی