Zulfeqar Ahmad

ذوالفقار احمد

ذوالفقار احمد کی نظم

    موت حیات کے شجر کا پھل ہے

    موت حیات کے شجر کا پھل ہے اسے بھی چکھ کر دیکھو بہت کنارے دیکھ چکے اب ندی سے مل کر دیکھو خاک پہ اپنی تدبیروں سے نقش بنائے کیا کیا بہت چلے ان رستوں پر اب ہوا میں چل کر دیکھو اور بھی دشت ہیں اور بھی در ہیں اس بستی سے میلوں باہر ان جیسے ہی اور بھی گھر ہیں جن کے آنگن جلتے بجھتے ایسے ہی ...

    مزید پڑھیے

    بے چارہ سورج مکھی

    ہم بہتے دریاؤں کی مانند نرم زمینوں کی تلاش میں ہیں جن کے ملائم بدن میں خوشبو ہو پر ان کی کوکھ میں بیج نہ ہو اس آس پر کہ بہتے دریا کا جب خاک سے وصل ہو بہتے بادلوں پر شام کا سفر جاری ہو مٹی اپنے مساموں میں آب سمو کر شانت ہو جائے پھر آسمان پر ستارے اور زمین پر نئے پھول پھولوں کے گرد ...

    مزید پڑھیے

    کبوتر

    آسماں کی وسعتوں میں گھومتے تمام دن گزر گیا ستارہ ٹمٹما رہا تھا شب ڈھونڈتے رہے سبھی مرے لہو میں بہہ گیا کدھر گیا سنہری دھوپ چھاؤں میں نیلگوں فضاؤں میں اسے مری تلاش تھی میں اس کو ڈھونڈھتا رہا شام جب تھکے تھکے بکھرتے بال و پر لیے میں خاک کا امیں ہوا ستارہ میرے بخت کا زمیں کی کوکھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2