Zoheb Amrohvi

زہیب امروہوی

زہیب امروہوی کی غزل

    کام ایسا میں کوئی کر جاؤں

    کام ایسا میں کوئی کر جاؤں آپ کے قلب میں اتر جاؤں تھام لو ہاتھ تم اگر میرا میں نکھر جاؤں میں سنور جاؤں بن گیا بت میں دیکھ کر تم کو دل میں تھا دیکھ کر گزر جاؤں اتنی شدت سے تم کو چاہا ہے تم کو پا لوں اگر تو مر جاؤں تم بھلائے بھلا نہیں سکتیں میں نشہ وہ نہیں اتر جاؤں ایسے ذہیبؔ آج ...

    مزید پڑھیے

    کتنا سادہ شباب لگتی ہو

    کتنا سادہ شباب لگتی ہو ایک تازہ گلاب لگتی ہو آپ حسن و جمال کی صورت ایک شاعر کا خواب لگتی ہو آسماں کے سبھی ستاروں میں اک تمہیں آفتاب لگتی ہو کیوں نشہ بن کے چڑھ گئیں مجھ پر ہاں پرانی شراب لگتی ہو زلف الجھی ہوئی ہے ساون سی برسا برسا شباب لگتی ہو جس پہ ہر بار میں اٹکتا ہوں وہ سوال ...

    مزید پڑھیے

    کسی نے تیری صورت دیکھ لی ہے

    کسی نے تیری صورت دیکھ لی ہے یہی سمجھو قیامت دیکھ لی ہے ابھی انجام دل معلوم کیا ہے اجی تم نے تو آفت دیکھ لی ہے کہ ایذا ہجر کی دیکھی کہاں تھی فقط تیری بدولت دیکھ لی ہے چراتا ہے وہ کافر آنکھ مجھ سے نگاہ چشم حسرت دیکھ لی ہے شرافت آج ہم نے ترک کر دی زمانے کی شرافت دیکھ لی ہے ذرا ...

    مزید پڑھیے

    محبت میں مری ہوگا اثر آہستہ آہستہ

    محبت میں مری ہوگا اثر آہستہ آہستہ ہاں تم ہو جاؤ گے میرے مگر آہستہ آہستہ نقاب اس نے ہٹائی اپنے چہرے سے ذرا ایسے کہ بدلی سے نکلتا ہو قمر آہستہ آہستہ بھلا کیسے بچیں ہم وار سے اس کے بتاؤ تم یہ جھک کر اٹھ رہی ہے جو نظر آہستہ آہستہ دبی چنگاریاں دل کی کریدو مت اداؤں سے کہیں شعلہ نہ بن ...

    مزید پڑھیے

    میری آنکھوں کا خواب تھا کوئی

    میری آنکھوں کا خواب تھا کوئی روح کا اضطراب تھا کوئی ہے فقط آج دل میں تنہائی کل تلک بے حساب تھا کوئی چاند غیرت سے چھپ گیا کل بھی چھت پہ پھر بے نقاب تھا کوئی ہم جسے چوم کر ہوئے زخمی خار جیسا گلاب تھا کوئی ان کی محفل میں جو ہوا رسوا ہم سا خانہ خراب تھا کوئی کیوں یہ ذہیبؔ چڑھ گیا ...

    مزید پڑھیے