میری آنکھوں کا خواب تھا کوئی

میری آنکھوں کا خواب تھا کوئی
روح کا اضطراب تھا کوئی


ہے فقط آج دل میں تنہائی
کل تلک بے حساب تھا کوئی


چاند غیرت سے چھپ گیا کل بھی
چھت پہ پھر بے نقاب تھا کوئی


ہم جسے چوم کر ہوئے زخمی
خار جیسا گلاب تھا کوئی


ان کی محفل میں جو ہوا رسوا
ہم سا خانہ خراب تھا کوئی


کیوں یہ ذہیبؔ چڑھ گیا سولی
عشق کا انقلاب تھا کوئی