محبت میں مری ہوگا اثر آہستہ آہستہ

محبت میں مری ہوگا اثر آہستہ آہستہ
ہاں تم ہو جاؤ گے میرے مگر آہستہ آہستہ


نقاب اس نے ہٹائی اپنے چہرے سے ذرا ایسے
کہ بدلی سے نکلتا ہو قمر آہستہ آہستہ


بھلا کیسے بچیں ہم وار سے اس کے بتاؤ تم
یہ جھک کر اٹھ رہی ہے جو نظر آہستہ آہستہ


دبی چنگاریاں دل کی کریدو مت اداؤں سے
کہیں شعلہ نہ بن جائے شرر آہستہ آہستہ


میں حال دل بتا تو دوں مگر رسوائی کا ڈر ہے
ادھر کی بات ہوتی ہے ادھر آہستہ آہستہ


ہوا ذہیبؔ دیوانہ کسی کے عشق میں دیکھو
گلی کوچوں میں پھیلے گی خبر آہستہ آہستہ