کتنا سادہ شباب لگتی ہو

کتنا سادہ شباب لگتی ہو
ایک تازہ گلاب لگتی ہو


آپ حسن و جمال کی صورت
ایک شاعر کا خواب لگتی ہو


آسماں کے سبھی ستاروں میں
اک تمہیں آفتاب لگتی ہو


کیوں نشہ بن کے چڑھ گئیں مجھ پر
ہاں پرانی شراب لگتی ہو


زلف الجھی ہوئی ہے ساون سی
برسا برسا شباب لگتی ہو


جس پہ ہر بار میں اٹکتا ہوں
وہ سوال اے حساب لگتی ہو


چاند چھپتا ہے تم سے شرما کر
کتنی تم لا جواب لگتی ہو


ایک مدت دبی دبی رہ کر
آج تم انقلاب لگتی ہو


مجھ کو دیکھا جو ساتھ غیروں کے
تم تو جل کر کباب لگتی ہو


اب خیالوں میں بھی نہیں ہو تم
اک مکمل عذاب لگتی ہو


تم نے ذہیبؔ کو جو ٹھکرایا
خود بھی خانہ خراب لگتی ہو