Waqar Sahar

وقار سحر

وقار سحر کی غزل

    شاخ گل پر لچک رہی ہوگی

    شاخ گل پر لچک رہی ہوگی ایک چڑیا چہک رہی ہوگی تم نے جس شاخ کو چھوا ہوگا وہ ابھی تک مہک رہی ہوگی شوخ لہروں نے بڑھ کے غسل دیا اب وہ زلفیں جھٹک رہی ہوگی جانتا ہوں کہ وہ خفا ہو کر مجھ کو چھپ چھپ کے تک رہی ہوگی میں ہی گریاں نہیں ہوں وہ بھی ضرور منہ چھپا کر بلک رہی ہوگی ترک الفت تو صرف ...

    مزید پڑھیے

    تم حقیقت نہیں حکایت ہو

    تم حقیقت نہیں حکایت ہو اک پرستان سے روایت ہو میں تمہیں خود بھی چھو نہیں سکتا تم مرا پاس میری حرمت ہو میں تمہیں چاہتا ہوں صدیوں سے تم ازل سے مجھے ودیعت ہو مجھ سے تم خرچ کیوں نہیں ہوتے کیا کسی اور کی امانت ہو تم تسلسل ہو میری سانسوں کا تم مرے جسم کی حرارت ہو تم مرا گوشوارۂ شب و ...

    مزید پڑھیے

    نقیب بخت سارے سو چکے ہیں

    نقیب بخت سارے سو چکے ہیں بالآخر بے سہارے سو چکے ہیں کسی سے خواب میں ملنا ہے شاید کہ وہ گیسو سنوارے سو چکے ہیں مجھے بھی خود سے وحشت ہو رہی ہے سبھی جذبے تمہارے سو چکے ہیں کئی مایوس ماہی گیر آخر سمندر کے کنارے سو چکے ہیں شب تنہائی جوں توں کٹ رہی ہے غم فرقت کے مارے سو چکے ہیں مقفل ...

    مزید پڑھیے

    پیش وہ ہر پل ہے صاحب

    پیش وہ ہر پل ہے صاحب پھر بھی اوجھل ہے صاحب آدھی ادھوری دنیا میں کون مکمل ہے صاحب آج تو پل پل مرنا ہے جینا تو کل ہے صاحب اچھی خاصی وحشت ہے اور مسلسل ہے صاحب دور تلک تپتا صحرا اور اک چھاگل ہے صاحب پورے چاند کی آدھی رات رقصاں جنگل ہے صاحب جھیل کنارے تنہائی اور اک پاگل ہے ...

    مزید پڑھیے

    مر ہی جاؤں جو ملے موت قرینے والی

    مر ہی جاؤں جو ملے موت قرینے والی زندگی تو مجھے لگتی نہیں جینے والی حضرت شیخ نے پابند کیا ہے ورنہ ایک ہی چیز مجھے لگتی ہے پینے والی یہ مرے سارے گھرانے کے لیے کافی ہے یہ کمائی ہے مرے خون پسینے والی جس کسی نے بھی سنائی ہے ادھوری ہی سنائی اک کہانی کسی مدفون خزینے والی مجھ کو لگتا ...

    مزید پڑھیے

    آزار و اذیت ہے یک طرفہ محبت بھی

    آزار و اذیت ہے یک طرفہ محبت بھی اک طرفہ قیامت ہے یک طرفہ محبت بھی سنتے تھے کہ قصہ ہے افسانوں کا حصہ ہے جانا کہ حقیقت ہے یک طرفہ محبت بھی خود سے ہی چھپاتے ہیں خود کو ہی جلاتے ہیں خود سے ہی رقابت ہے یک طرفہ محبت بھی اک شخص سے وابستہ جذبات ہیں صف بستہ اک طرز عقیدت ہے یک طرفہ محبت ...

    مزید پڑھیے

    اس بہانے کے بعد کیسا عشق

    اس بہانے کے بعد کیسا عشق بھول جانے کے بعد کیسا عشق یعنی تم مجھ کو آزماؤ گے آزمانے کے بعد کیسا عشق ضبط تو اصل ہے محبت کی غم جتانے کے بعد کیسا عشق یہ ترا وہم ہے فقط اک وہم تیرے جانے کے بعد کیسا عشق اک کمی کا کسک کا نام ہے یہ عشق پانے کے بعد کیسا عشق

    مزید پڑھیے

    روشنی کا سبب عشق ہے

    روشنی کا سبب عشق ہے نغمگی کا سبب عشق ہے خاک ناپاک کی خلق پر برتری کا سبب عشق ہے روح میں کھلتے جذبات کی تازگی کا سبب عشق ہے مجھ سے بے باک انسان کی بے بسی کا سبب عشق ہے مجھ فقیر کم آمیز کی سروری کا سبب عشق ہے سرکشی کا سبب ہے ہوس بندگی کا سبب عشق ہے باعث عشق ہے زندگی زندگی کا سبب ...

    مزید پڑھیے

    لبوں پہ شکوۂ ایام بھی نہیں ہوتا

    لبوں پہ شکوۂ ایام بھی نہیں ہوتا زباں پہ اب تو ترا نام بھی نہیں ہوتا کبھی کبھی اسے سوچوں تو سوچ لیتا ہوں کبھی کبھار یہ اک کام بھی نہیں ہوتا یہ مے کدہ ہے نہیں مے کشو یہ دھوکا ہے یہاں تو نشہ تہہ جام بھی نہیں ہوتا نہیں یہ درد نہیں یہ ضرور ہے کچھ اور کہ اس میں تو مجھے آرام بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے